Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

لائق سمجھنا ہی نالائقی ہے (دیوان سنگھ مفتون)

ماہنامہ عبقری - اپریل 2010ء

ایڈیٹرہفت روزہ ریاست دہلی (تقسیم ہند سے قبل) دیوان سنگھ مفتون برصغیر کا ایک مشہور اور انقلابی نام ہے۔ انہوں نے جیل میں زندگی کے جو سچے مشاہدات اور تجربات بیان کیے وہ قارئین کی نذر ہیں۔آپ بھی اپنے تجربات لکھئے۔ ایڈیٹر ریاست کی جرنلزم کی تمام زندگی میں شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو گا جس روز اس کے پاس پانچ سات مضامین افسانے یا نظمیں ایسی نہ پہنچی ہوں جن کو ریاست میں شائع نہیں کیا جاسکتا تھا اور صرف ریاست کا ہی کیا سوال ہے۔ دنیا کے ہر اخبار کے دفتر میں چھپنے والے مضامین سے زیادہ مواد ناقابل اشاعت پہنچتا ہے۔ جو لکھنے والوں کو واپس کردیا جاتا ہے مگر ایک اخبار نویس کی حالت اس وقت قابل رحم ہوتی ہے جب مضمون نگار مضمون کے واپس پہنچنے کے بعد یہ دریافت کرے کہ مضمون شائع نہ کرنے کی وجہ کیا ہے۔ چنانچہ دفتر ریاست سے ایسے حضرات کو صرف یہی جواب دیا جاتا ہے کہ ہماری قابلیت بہت محدود ہے آپ کے بلند مضمون کو سمجھنے کی ہم اہلیت نہیں رکھتے۔ انسان کی فطرت حق وصداقت اور معقولیت کی پرواہ نہیں کرتی اور بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو معقولیت کو اپنی فطرت پر غالب آنے دیں۔ چنانچہ مضامین کے سلسلہ میں بھی یہ قدرتی امر ہے کہ اگر کسی مضمون نگار کا مضمون اخبار میں شائع ہوتو مضمون نگار کا خوش ہونا فطرتاً ضروری ہے اور اگر مضمون شائع نہ ہو اور وہ واپس کردیا جائے تو مضمون نگار یقیناً ناخوش ہی نہ ہوگا بلکہ اس کے دل میں اخبار کیلئے نفرت بھی پیدا ہوجائے گی اور مضمون نگار ایسا کرنے کیلئے انسانی فطرت کے باعث مجبور ہے کیونکہ جب وہ مضمون لکھتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ مضمون بہت اچھا ہے۔ اسے اخبار میں شائع ہونا چاہیے اور جب مضمون ناقابل اشاعت قرار دے کر اس کے پاس واپس پہنچے تو اس کو یہی احساس ہوتا ہے کہ مضمون تو اچھا تھا۔ ایڈیٹر نے اپنی نالائقی‘ قدر ناشناسی یا کسی اور وجہ سے واپس کردیا۔ چنانچہ اگر مضمون لکھنے والے کو مضمون کے بلند اور بہتر ہونے کا یقین نہ ہوہوتا تو وہ مضمون کو بھیجتا ہی کیوں۔ یا اسے مضمون کی غلطیوں کا احساس ہوتا تو وہ بھیجنے سے پہلے اپنی غلطیوں کو درست کرلیتا۔ مضامین کے سلسلہ میں دل کا ایک واقعہ لکھتا ہوں جو زندگی بھر میری رہبری کا باعث ہوا اور جس کے بعد میں نے اپنے آپ کو ہمیشہ ہی رنگروٹ‘ نالائق یا ایک طالب علم سمجھا اور میرا احساس ہوتا تو وہ بھیجنے سے پہلے اپنی غلطیوں کو درست کرلیتا۔ مضامین کے سلسلہ میں دل کا ایک واقعہ لکھتا ہوں جو زندگی بھر میری رہبری کا باعث ہوا اور جس کے بعد میں نے اپنے آپ کو ہمیشہ ہی رنگروٹ‘ نالائق یا ایک طالب علم سمجھا اور میرا یہی احساس میری جرنلزم کی زندگی میں کامیابی کا سب سے بڑا باعث ہے۔ لالہ شام لال کپور (ایڈیٹر گورو گھنٹال) لاہور سے ایک روزانہ اردو اخبار بلیٹن نکالتے تھے آپ سنسنی پیدا کرنے والے مضامین میں بہت مشاق تھے اور اس اعتبار سے شاید اس زمانہ میں لاہور کا کوئی اخبار نویس آپ کا مقابلہ نہ کرسکتا تھا مگر علم و ادب‘ افسانہ یا نظم وغیرہ سے آپ کوکوئی مناسبت نہ تھی۔ میں اس زمانہ میں لالہ شام لال کے اخبار میں روزانہ چند گھنٹے کام کرتا تھا اور کام سے فارغ ہونے کے بعد ہم دونوں شام کو سینما بھی جایا کرتے۔ ایک روز کام ختم کرنے کے بعد ہم سیر کیلئے جارہے تھے تو ہمیں سامنے سے آتے ہوئے مہاشہ سدرشن (جن کے اس زمانہ میں بطور افسانہ نویس بہت بڑی شہرت تھی۔ کئی کتابوں کے مصنف تھے اور آج کل ممبئی کی کسی فلم کمپنی میں بطور ڈراما نویس دوہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پاتے ہیں) ملے‘ نمستے نمستے ہونے کے بعد لالہ شام لال نے مہاشہ سدرشن سے کہا ”سدرشن صاحب میں تو زندگی بھر یہی سمجھتا رہا کہ افسانہ لکھنا بہت مشکل کام ہے اور اس فن میں کمال حاصل کرنے کیلئے کئی برس کی ضرورت ہوتی ہے مگر آپ حیران ہوں گے آج میں نے افسانہ لکھنے کی پہلی بار کوشش کی اور میں نے نصف گھنٹہ کے اندر بہت اچھا افسانہ لکھ دیا جو کل کے اخبار میں شائع ہوگا۔ مہاشہ سرشن نے لالہ شام لال کے یہ الفاظ سن کر جو جواب دیا وہ یہ تھا: ”شام لال جی! آپ نے تو نصف گھنٹہ میں افسانہ لکھ لیا مگر میں آپ سے کہتا ہوں کہ اگر آپ پانچ سات سال تک مسلسل افسانہ لکھتے رہیں تو پانچ سات برس کے بعد آپ کو معلوم ہوگا کہ افسانہ کسے کہتے ہیں۔ آپ کو افسانہ لکھنا پھر بھی نہ آئے گا یعنی افسانہ کو صرف سمجھنے کیلئے ہی پانچ سات برس کا عرصہ چاہیے لکھنا تو بہت بڑی بات ہے۔“ جو لوگ جرنلزم کا پیشہ اختیار کرنا چاہیں یا جن اصحاب کو مضمون نگاری یا افسانہ نویسی کا شوق ہو وہ اگرچہ مہاشہ سدرشن کے ان الفاظ کو ذہن میں رکھیں تو ان کیلئے کامیابی حاصل کرنا مشکل نہیں کیونکہ دنیا میں کسی فن کو وہی شخص سیکھ سکتا ہے جو بطور طالب علم سیکھنے کی کوشش کرے اور اگر نالائق اور ناواقف ہوتے ہوئے اس نے اپنے آپ کو لائق اور بلند سمجھا تو اس نے اپنی ترقی کی راہیں محدود کرلیں۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 439 reviews.